Home

21- نومبر- 1993

میں نے دوڑنا شروع کیا اور امپائر کے پاس سے گزرتے ہوئے پوری طاقت سے گیند کرا دی۔  ٹین پر گیند لگنے کی مخصوص آواز ابھری اور ساتھی کھلاڑیوں نے مجھے گھیر لیا۔ فریقِ مخالف کا آخری بلے باز آئوٹ ہوکر واپس جا رہا تھا اور ہم میچ جیت چکے تھے۔ داد و تحسین کے شور میں خود  کو اس وقت وقار یونس سمجھتے ہوئے میں ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔ ہوتے ہوتے فتح کا جشن تھما اور اگلے میچ کی تیاری شروع ہوگئی۔ یہ ہمارا روز کا معمول ہے۔ سہ پہر سے ہی سارے لڑکے گلی میں جمع ہوجاتے اور آپس میں سات سات کھلاڑی بانٹ کر روزانہ کی بنیاد پر ٹورنامنٹ کھیلا کرتے ہیں۔

آج بھی ٹورنامنٹ جاری تھا اور ابھی تیسرے میچ کیلئے ٹاس ہو ہی رہا تھا کہ عصر کی اذان ہوگئی اور ہم سب لڑکے کھیل چھوڑ کر مسجد پہنچ گئے۔ نماز کے بعد ہماری کوشش تھی کہ جلد از جلد واپس کھیل شروع کرسکیں مگر مولوی صاحب نے ہم لڑکوں کو درس کیلئے روک لیا۔ رکنے کا دل تو ہم میں سے کسی کا بھی نہیں تھا مگر کیا کرتے؟ اگر درس میں نہیں بیٹھتے تو اللہ میاں نہ صرف امتحانات میں فیل کروا دیتے بلکہ بعد میں آگ میں بھی ڈالتے۔ رکنا ہی پڑا۔ درس میں مولوی صاحب نے ہم سب لڑکوں پر خوب لعن طعن کی اور ہمیں سڑکوں پر وقت ضائع کرنے پر خوب لتاڑا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ یہاں ہم کرکٹ جیسے واہیات کھیل میں مگن ہیں اور وہاں دشمن کشمیر میں ہماری ماں بہنوں کی عزت لوٹ رہا ہے۔ ہم یہاں سڑکیں ناپ رہے ہیں اور دشمن نے وہاں بابری مسجد مسمار کردی ہے۔ مولوی صاحب کافی دیر تک بولتے رہے اور ہم سب خاموشی سے ان کی باتیں سنتے رہے۔

مولوی صاحب کے پاس سے اٹھ کر آنے کے بعد کھیل میں میرا دل بالکل نہیں لگا۔ کسی کی کی عزت لوٹنا بہت بری بات ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے پچھلے مہینے جب میں نے لطیفوں کی کتاب سے جگتیں یاد کرکے کلاس کے بچوں کی عزت لوٹی تھی تو اسلامیات کے ٹیچر کتنے ناراض ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ بدترین شخص وہ ہے جس کی زبان کے شر کی وجہ سے لوگ اس سے ڈریں۔  میں نے تو پھر بھی لڑکوں کی عزت لوٹی تھی۔ یہ دشمن تو آنٹیوں اور بہنوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے؟ ان کے اسلامیات کے ٹیچر نے شاید انہیں یہ حدیث سنائی نہیں ہوگی یا شاید ان کے اسلامیات کے ٹیچر اس بید کا استعمال نہیں کرتے ہوں گے جس سے ساری باتیں یاد رہتی ہے۔

ابو نے کہا تھا کہ مجھے ڈائری لکھنی چاہئے اس لیئے آج یہ ساری باتیں لکھ رہا ہوں۔ میرے پاس ڈائری تو نہیں ہے لحاظہ آج سے اس کاپی کو ہی ڈائری بنا لوں گا۔ اب اجازت دو، کل سائنس کا ٹیسٹ ہے اور مجھے ابھی مادے کی تینوں حالتیں اور ان کے خواص  یاد کرنے ہیں۔

7 – جون –  1995

آج بہت دن بعد اسٹور میں یہ کاپی دکھی تو یاد آیا کہ میں نے ایک دن کیلئے ڈائری لکھنا شروع کی تھی۔ دو سال کا وقفہ کم نہیں ہوتا۔ مگر کیا کروں؟ اسکول، اس کے بعد کرکٹ، پھر ہوم ورک ۔۔۔ یاد بھی نہیں رہا کہ ڈائری لکھنی ہے۔ اب انشاءاللہ روز ڈائری لکھوں گا۔ جیسے ابو لکھتے ہیں۔ ویسے کتنا مزہ آئے اگر میں بھی ابو کی طرح ڈائری لکھوں۔ تمہیں پتہ ہے ابو کس طرح ڈائری لکھتے ہیں؟

جیب خرچ:                                        دو روپے

گولا گنڈا:                                          پچاس پیسے
چنا چاٹ:                                           بارہ آنے
کرکٹ بال کیلئے ٹیپ کا چندہ:                  پچاس پیسے

کل بچت:                                          چار آنے

مگر وہ چار آنے جو بچے تھے وہ کہاں گئے؟ خدا جانے کہاں رکھ چھوڑے۔ سوچ سوچ کر دل بیٹھ رہا ہے۔ یونین کے چار بسکٹ آجاتے ان چار آنوں کے۔ بھئی مجھ سے تو نہیں لکھی جانی ابو کی طرح ڈائری۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ پچاس پچاس روپیوں کا حساب ایک دفعہ میں لکھتے ہیں۔ میرا دو روپے میں یہ حال ہوا ہے تو ابو کو تو رات کو نیند بھی نہیں آتی ہوگی۔ شاید اس ہی لیئے رات کو جب بھی آنکھ کھلتی ہے میں انہیں مصلے پر پاتا ہوں۔ پہلے میں سوچتا تھا کہ وہ اللہ میاں کے خوف سے رو رہے ہیں مگر اب مجھے لگتا ہے کہ ابو کے روزانہ دو تین روپے اس طرح غائب ہوجاتے ہوں گے اس لیئے وہ رات کو اٹھ کر روتے ہیں۔ رات کو اٹھ کر رونے سے یاد آیا کہ میں نے اس دن باجی سے پوچھا تھا کہ ابو جائےنماز پر بیٹھ کر کیوں روتے ہیں تو باجی کہنے لگیں کیوں کہ اللہ میاں کو اپنے حضور عاجزی کرنے اور گڑگڑانے والے لوگ پسند ہیں۔ میں نے باجی کو یاد دلایا کہ وہ کہتی تھیں کہ اللہ میاں تو ہم سے امی سے بھی زیادہ پیار کرتے ہین، تو پھر یہ کیسی امی ہیں جنہیں بچوں کو رلانا اچھا لگتا ہے۔ باجی کو میری بات کچھ خاص پسند نہیں آئی لحاظہ حسب روایت میری گدی پر ایک جھانپڑ رسید کرکے کچن میں چلی گئیں۔

ابھی تو اچانک نظر پڑ گئی اس لیئے لکھنے بیٹھ گیا، مگر اب مجھے یاد نہیں آرہا کہ اور کیا لکھنا چاہئے۔ کل ساری باتیں یاد کرکے رکھوں گا اور رات میں لکھوں گا۔ تب تک کیلئے خدا حافظ۔

19 – جولائی – 1996

تم سمجھ رہی ہوگی کہ میں “دوست ہیں اپنے بھائی بھلکڑ” ہوں جو سال بھر بعد آج ڈائری لکھنے بیٹھا ہوں، مگر ایسا نہیں ہے۔ دراصل میرے پاس کچھ لکھنے ایسا تھا ہی نہیں تو لکھتا بھی تو کیا لکھتا؟ پچھلے ایک سال میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ میں بہت بدل گیا ہوں۔ اب میں پہلے کی طرح ہنستا بولتا بھی نہیں ہوں۔ زیادہ بات بھی نہیں کرتا۔ یا شاید کوئی مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ سب کہتے ہیں مجھ میں ایک بوڑھے کی روح سمائی ہوئی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ کون بوڑھا ہے جس کی روح مجھ میں سما گئی ہے اور میں کس طرح ان بوڑھے انکل کو ان کی روح واپس کرسکتا ہوں۔ مگر یہ واحد چیز تو نہیں جس کا جواب مجھے معلوم نہیں ہے۔ اور بھی سینکڑوں سوالات ہیں جن کے جوابات میرے پاس موجود نہیں ہیں اور یہ سوالات مجھے دن رات تنگ کرتے رہتے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ٹیلیویژن پر ایک حمد دیکھی جس کے مطابق “اللہ ہے بس پیار ہی پیار” میں نے یہ حمد سنی تو بڑے بھیا کے پاس جا بیٹھا اور ان سے سوال کردیا کہ اللہ میاں کتنے ہوتے ہیں؟ انہوں نے مجھے گھور کر دیکھا اور کان مروڑتے ہوئے بولے، گھوڑے کے گھوڑے ہوگئے اور تمہیں آج تک یہی نہیں پتہ کہ اللہ میاں ایک ہی ہیں اور وہ کبھی دو نہیں ہوسکتے”۔ میں نے کان سہلاتے ہوئے بھیا سے دوسرا سوال کردیا کہ، آپ سب جن اللہ میاں کی بات کرتے ہیں وہ تو صرف آگ میں ڈالتے ہیں، یا زخموں کی پیپ پلاتے ہیں جبکہ ٹیلیویژن والے اللہ میاں تو بس پیار ہی پیار ہوتے ہیں۔ ایک ہی اللہ میاں آگ میں ڈال کر اور پیپ پلا کر بھی پیار ہی پیار کیسے ہوسکتے ہیں۔ بھیا نے مجھے حیرت سے دیکھا اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد بولے، دیکھو ننھے! اللہ میاں مسلمانوں کیلئے صرف پیار ہی پیار ہیں اور کافروں کو وہ آگ میں بھی ڈالیں گے اور سخت سزائیں بھی دیں گے۔ میں نے بڑے بھیا سے پوچھا کہ اگر اللہ میاں صرف کفار کو آگ میں ڈالیں گے تو میں تو مسلمان ہوں۔ پھر آپ لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہ مجھے آگ میں ڈالیں گے۔ بڑے بھیا میرے سوالات سے اب تنگ آچکے تھے سو یہ کہہ کر دوبارہ ڈائجسٹ پڑھنے میں مگن ہوگئے کہ اگر میں نے اس قسم کے سوالات پوچھنا نہیں چھوڑے تو وہ اللہ میاں سے کہہ کر مجھے آگ میں ڈلوا دیں گے۔ میں خاموشی سے وہاں سے اٹھ آیا۔ مجھے آگ اور اللہ میاں دونوں سے ہی بہت ڈر لگتا ہے۔ پتہ نہیں ہم لوگوں نے ان کا کیا بگاڑا ہے جو وہ بات بات پر ہم لوگوں کو آگ میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر پتہ چلا تو تمہیں بھی ضرور بتائوں گا۔ تب تک کیلئے اجازت۔

1– مارچ – 1997

میں نے سوچا تھا کہ جب تک اللہ میاں کے بارے میں معلومات نہیں کرلوں گا تب تک ڈائری نہیں لکھوں گا۔ آج میں نے زندگی میں پہلی بار قرآن ترجمے کے ساتھ مکمل ختم کرلیا ہے سو آج میں تم سے باتیں کرنے بیٹھا ہوں۔ تمہیں پتہ ہے کہ ہمارے بڑے ہم کو جھوٹ بولنے سے منع کرتے ہیں مگر خود ہمیشہ سے جھوٹ بولتے آئے ہیں؟ مجھے پتہ ہے کہ میں ابھی چھوٹا ہوں اور میری سمجھ بھی بہت چھوٹی ہے مگر قرآن کا ترجمہ پڑھنے کے بعد مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ سب جھوٹ بولتے آئے ہیں۔ اللہ میاں مجھے آگ میں نہیں ڈال سکتے۔ میں نے بچپن سے اب تک ڈانٹ بھی بہت کھائی ہے اور نصیحتیں بھی بہت سنی ہیں۔ قرآن میں کہیں بھی مجھے یہ نہیں لگا کہ اللہ میاں مجھے ڈانٹ رہے ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اللہ میاں نے یہ کتاب ویسے ہی لکھی ہے جیسے باجی جب مجھ سے بہت مایوس ہوجاتی ہیں تو سمجھانے کیلئے بولتی ہیں۔ لالچ بھی دیتی ہیں، پیار بھی دکھاتی ہیں اور دھمکاتی بھی ہیں۔جب وہ تینوں چیزیں ایک ساتھ استعمال کرتی ہیں تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ وہ واقعی یہ چاہتی ہیں کہ میں ان کی بات مان لوں۔ شاید اللہ میاں بھی چاہتے ہیں کہ میں کسی بھی طرح ان کی باتیں مان لوں۔ اور اللہ میاں کوئی غلط باتیں بھی نہیں کرتے۔ قرآن پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میں گندہ بچہ نہیں ہوں۔ میں چوری نہیں کرتا، جھوٹ نہیں بولتا، ہمارے گھر میں کوئی حرام چیز بھی نہیں آتی۔ اور پورے قرآن میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ ٹیلیویژن دیکھنے، دیر تک کرکٹ کھیلنے، بڑے بھیا کی جگہ بازار سے سودا نہ لانے، باجی کو پانی نہ پلانے وغیرہ پر اللہ میاں آگ میں ڈالیں گے۔ یہ لوگ بلاوجہ میں مجھے ڈرا کر اپنے کام نکلواتے رہتے تھے۔ مجھے پہلے ہی قرآن کا ترجمہ پڑھ لینا چاہئے تھا۔ اور ہاں، سب سے اچھی بات اللہ میاں کی یہ ہے کہ وہ سوال کرنے پر برا نہیں مانتے بلکہ کئی جگہ خود کہتے ہیں کہ چیزوں پر فکر کرو۔ مجھے تو یہ والے اللہ میاں بہت پسند آئے ہیں۔ میں جب بھی کبھی ان سے ملا تو ان کیلئے چاکلیٹ لیکر جائوں گا۔ میں نے پیسے بھی جمع کرنا شروع کردیئے ہیں۔ اچھا اب اجازت دو۔ اب میں ڈائری لکھتا رہوں گا۔

2 – اگست – 1997

پچھلے تین دن سے پریشان گھوم رہا تھا اور آج بےحد اداس ہوگیا ہوں۔ بات ہی کچھ ایسی ہے۔ ہوا یوں کہ ابھی پچھلے ہفتے ہی عیدِ میلاد النبی تھی۔ خوب جشن رہا۔ ہماری بھی اسکول کی چھٹی تھی اور ابو کو بھی دفتر نہیں جانا تھا۔ چھٹی کا دن تھا سو پھپھو بھی ملنے آگئیں تھیں۔ گھر میں خوب رونق رہی۔ شام کو محلے کے بچوں نے ایک چھوٹا سا جلوس بھی نکالا۔ میں نہیں گیا۔ گھر پر رک کر پھپھو کے بچوں کے ساتھ ہی کھیلتا رہا۔ جب جلوس ختم ہوگیا اور شام کو پھپھو بھی واپس چلی گئییں تو میں ابو کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ ہر سال بارہ ربیع الاول کو یہ جلوس کیوں نکالا جاتا ہے؟ اس دن چھٹی کیوں ہوتی ہے؟ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ اس دن ہمارے پیارے نبی ﷺ پیدا ہوئے  تھے مگر اس دن چھٹی کیوں ہوتی ہے اور یہ جلوس کیوں نکالے جاتے ہیں مجھے اس چیز کی کبھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ ابو میرا سوال سن کر مسکرائے اور بولے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ ہر ملک اپنے ہیروز کو یاد کرتا ہے اور ان کی پیدائش و وفات کے دنوں کو تعطیلات دی جاتی ہیں کہ لوگ اس دن سب کام کاج چھوڑ کر ان قومی ہیروز کو یاد کریں اور ان کے کارناموں کے بارے میں پڑھیں۔ ٹیلیویژن پر بھی اس دن خصوصی نشریات چلائی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان عظیم انسانوں کے بارے میں جان سکیں۔ ہم چونکہ ایک اسلامی ملک ہیں اس لیئے ہم اپنے قومی ہیروز کے علاوہ اسلام کے ہیروز کو بھی یاد رکھتے ہیں۔ ہمارے عقیدے کے مطابق محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین انسان تھے اور دنیا میں آپ ﷺ سے بڑا کوئی ہیرو آج تک نہیں گزرا اس لیئے آپ ﷺ کی پیدائش کا جشن ملک گیر سظح پر منایا جاتا ہے اور اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔ لوگ اللہ کے محبوب ترین انسان سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور جلوس اور میلاد کی محافل منعقد کی جاتی ہیں۔ ابو کی بات مجھے سمجھ آگئی تھی مگر مزید یقین کرنے کیلئے میں نے پوچھ لیا کہ کیا دس محرم کو بھی اس ہی لیئے چھٹی ہوتی ہے اور جلوس نکالے جاتے ہیں؟ ابو مسکرائے اور بولے، امام حسین تاریخ انسانی کا ایک بہت بڑا نام ہیں۔ آپ نے دس محرم کو جام شہادت نوش کرکے اسلام کو زندہ کردیا تھا۔ ان کی شہادت کی یاد میں دس محرم والے دن حکومت چھٹی دیتی ہے اور لوگ جلوس کی شکل میں باہر نکل کر خدا کے اس عظیم بندے کی قربانی کو یاد کرتے ہیں۔ مجھے اب اس بات کی مکمل سمجھ آگئی تھی مگر دماغ میں ایک نیا سوال جنم لےچکا تھا۔ میں نے ابو سے پوچھا کہ جب بارہ ربیع الاول کو ہم اللہ کے سب پیارے کی یاد میں نکلتے ہیں، اور دس محرم کو اللہ کے ایک عظیم بندے کی قربانی یاد کرتے ہیں تو ہم نے ان دونوں کو محبوب اور عظیم بنانے والے اللہ میاں کیلئے کون سا دن مخصوص کیا ہوا ہے؟ اللہ میاں کیلئے جلوس کب نکلتا ہے؟ ہم اس جلوس میں کیوں نہیں جاتے؟ میں نے اپنی بات ختم کرکے سوالیہ نظروں سے ابو کی طرف دیکھا مگر ابو کو نیند آرہی تھی اس لیئے انہوں نے مجھے وہاں سے جانے کیلئے کہہ دیا۔ تین دن سے انتظار کر رہا ہوں مگر ابو کی مصروفیت ختم ہی نہیں ہوکر دے رہی۔

آج میں نے یہی سوال اسلامیات کے ٹیجر سے پوچھا تو وہ اداس سے ہوگئے۔ کہنے لگے کہ، بیٹا! ہمارے درمیان اللہ کے رسول سے محبت کے بہت دعوے دار ہیں، اللہ کے محبوب کے اصحاب کے نام لیوا بھی بہت ہیں، اور اللہ کے محبوب کے اہل بیت پر جان قربان کرنے والے بھی ہزاروں ہیں مگر ان سب کے خالق اللہ سے محبت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ کوئی ایک جماعت ایسی نہیں کہ جو کھڑی ہوکر یہ کہہ سکے کہ ہم صرف اللہ سے اور صرف اللہ کیلئے محبت کرتے ہیں۔ مجھے اسلامیات کے ٹیچر کی پوری بات تو سمجھ نہیں آئی مگر یہ جملہ مجھے بہت برا لگا کہ اللہ میاں سے محبت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اللہ میاں کو کتنا برا لگتا ہوگا؟ یہ تو ایسا ہی ہوگیا جیسے کوئی ابو سے کہے کہ آپ سے تو میرا کوئی تعلق نہیں مگر چونکہ یہ آپ کا بیٹا ہے اس لیئے یہ مجھے بہت پیارا ہے۔ بیچارے اللہ میاں۔ میں جب بڑا ہوجائوں گا تو اللہ میاں کیلئے جلوس نکالوں گا۔ اچھا اب باجی آواز دے رہی ہیں۔ یونیفارم استری کرنا ہے۔ خدا حافظ

جاری ہے

کہانی کے اگلے حصے میں آپ جان سکیں گے کہ خدا اور دائمی سکون کی تلاش میں یہ بچہ کن مراحل سے گزرا۔ بہت جلد ملاحظہ کیجئے داستان کی دوسری اور آخری قسط۔

5 thoughts on “خدا

  1. I think that you should write about something which brings positive change in our society such as
    ‘How people use to respect elders, other’s point of view, how to keep clean our streets, how to obey trafix etc. By some story because everyone have these tiny thougets of childhood which is not going to bring any positive change in our society. No offense though..

    Like

  2. پہلی لائن سے آخری لائن تک اپنے سحر میں گرفتار کر دینے والی تحریر بہت شدت سے اگلی قسط کا انتظار رہے گا

    Liked by 1 person

  3. میرے پاس لفظ نہیں جسمیں اس تحریر کی خوبصورتی کو بیان کرسکوں … اتنا کہ یہ کیفیت تقریباً ہر بچے کی ہوتی ہے مگر صحیح معنوں میں اپنے اس سوچ اس جذبات اور اس کیفیت کو مکمل لفظوں کا لباس پہنا کر پیش کیا ہے… صدا خوش رہیں آمین

    Like

  4. کسی قسم کے ٹرانس میں پڑهی یہ تحریر
    شاید ناسٹلجیا تها
    پارٹ ٹو کا شدت سے انتظار ہے

    Like

Leave a comment