Home

پیاری ڈائری!

طویل غیر حاضری کیلئے معذرت! جی تو بہت کرتا تھا کہ لکھنے بیٹھوں اور تمہیں اپنی روداد سنائوں مگر کیا کرتا کہ مصروفیات نے ایسا گھیرا رکھا تھا کہ بلا مبالغہ سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔ یہ مصروفیت بھی کوئی معمولی مصروفیت نہیں تھی۔ دراصل ہوا یہ کہ میں طویل بیروزگاری سے تنگ آچکا تھا اور لکھنے کی عیاشی کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا تھا لہٰذا ساری توجہ کام کی تلاش پر مبذول کرکے قلم طاق پر رکھ دیا تھا اور نوکری کی تلاش میں مصروف تھا۔

عرصے کے بعد نوکری ڈھونڈنے نکلا تو احساس ہوا کہ نوکری ڈھونڈنا، آج کل کے معاشرے میں شریف انسان ڈھونڈنے کے بعد سب سے مشکل کام ہے۔ جہاں کہیں بھی گیا، سب لوگوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ کسی ایسے انسان کو وہ اپنے ادارے میں جگہ نہیں دے سکتے جس کا دماغ اور زبان ایک ساتھ چلتی ہو۔ خود سوچو، زبان دراز اگر زبان بند رکھنا سیکھ جائے تو زبان دراز کس بات کا؟ اور جہاں تک دماغ نہ چلانے کا تعلق ہے تو مطالعہ نامی بیماری کے بعد سے یہ مردود دماغ ہر چیز میں خودبخود چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ بیچارہ زبان دراز جاتا تو کہاں جاتا؟

دوست احباب کو جب پریشانی کا علم ہوا تو اسد بھائی نے مشورہ دیا کہ مرغی کے کام میں سب سے زیادہ فائدہ ہے۔ آنکھیں بند کرکے یہ کام شروع کردو کہ سرمایہ بھی کم ہے اور مرغی کے گوشت کا تو ناغہ بھی نہیں ہوتا۔ دوسری اور اہم وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ انہوں نے کسی جاوید چوہدری صاحب کے کالم میں کہیں پڑھ رکھا ہے کہ مرغی سب سے بے ضرر مخلوق ہے۔ دڑبے میں ہاتھ ڈال کر مرغی کو ذبح کرنے کیلئے نکالو بھی تو باقی مرغیاں، توتے کی طرح کاٹنے کے بجائے ایک دوسرے کے پیچھے چھپنا شروع ہوجاتی ہیں کہ کسی طرح دوسرے کی باری آجائے اور ہم بچ جائیں۔ دن میں جتنی مرتبہ ضرورت پڑے، پنجرے میں ہاتھ ڈالو اور ایک مرغی کو دبوچ لو۔ یہ ایک ایک کرکے ساری ذبح ہوجائیں گی مگر پلٹ کر کچھ نہیں کہیں گی۔

میں نے بھی دل میں علامہ اقبال سے معذرت کرتے ہوئے سوچا کہ “یوں تو چھوٹی ہے ذات مرغی کی، دل کو لگتی ہے بات مرغی کی”۔ اور دوستوں سے سرمایہ لگا کر ایک مرغی کے گوشت کی دکان کھول لی۔ پچھلے تین دن اس ہی حوالے سے مصروفیت رہی۔ علی بھائی اور جاوید چوہدری صاحب دونوں صحیح کہتے تھے۔ کام کا بھی بےتحاشہ رش تھا اور منافع بھی چوکھا۔

دکان پر اکثر مجھے خیال آتا کہ ٹیلیویژن پر دن رات غربت کے رونے رونے والوں کو میں لاکر کھڑا کروں اور پوچھوں کے غربت کہاں ہے؟ جس ملک کی غربت کا رونا روتے ان کی زبان نہیں تھکتی وہاں لوگ اب بھی 100 فی صد منافع پر بکنے والی چیز تو خرید سکتے ہیں مگر اپنے نفس پر قابو کرنا نہیں سیکھ سکتے۔ کیا اس ہی کا نام غربت ہے؟۔ میں کس منہ سے انہیں غریب کہوں جب ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے لینے والے ریستوران کا مالک مجھ سے روزانہ سینکڑوں مرغیاں خریدتا ہو؟ طلب اور رسد کا بنیادی قانون یہی بتاتا تھا کہ ہزاروں روپے ایک وقت کے کھانے پر خرچ کرنے والے بے تحاشہ لوگ موجود ہیں تبھی وہ مجھ سے اتنی مرغیاں خریدتا ہے۔ مگر خیر، جانتا ہوں کہ ڈائری اور مرغیاں غیر سیاسی ہوتی ہیں سو اس بات کو یہیں رہنے دیتے ہیں۔ بلاوجہ کی نصیحت بھی ایک طرح کی زحمت ہی ہوتی ہے۔

یہ تو ہوا گزشتہ تین دن کا احوال۔ آج مگر ایک عجیب سا سانحہ ہوگیا جس کی وجہ سے مجھے دکان جلدی بند کرکے آنا پڑا۔ جلدی گھر آیا اور وقت بھی میسر ہوگیا تو یہ ڈائری لکھنے بیٹھا ہوا ہوں۔ ہوا کچھ یوں کہ آج بھی روز کی طرح گاہک آرہے تھے، مرغیاں کٹ رہی تھیں، گوشت بک رہا تھااور ہر چیز معمول کے مطابق تھی۔  جب جمال بھائی نے مجھے تین کلو مرغی تولنے کا کہا تو میں نے خوشی خوشی پنجرے میں ہاتھ ڈالا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ معمول کے بالکل برخلاف تھا۔ چونکہ ان مرغیوں نے کبھی کسی اخبار کا کالم نہیں پڑھا تھا اور نہ یہ اسد بھائی کو جانتی تھیں لہٰذا انہوں نے روز کے ضابطے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میرے اوپر حملہ کردیا۔ ہاں پیاری ڈائری میں جھوٹ نہیں کہتا۔ ان ساری مرغیوں نے ایک بار اکٹھے ہوکر میرے ہتھ پر چونچوں کی بارش کردی۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ باہر کھینچ لیا۔

پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا ہے۔ پھر میں نے اسے اتفاق سمجھتے ہوئے دوبارہ پنجرے کا دروازہ کھولا اور اپنے کاریگر کو مرغی پکڑنے کا کہا۔ مرغیوں نے نیا ہاتھ دیکھا تو پہلے تو کچھ نہ بولیں۔ مگر جیسے ہی اس غریب نے ایک مرغی کو پکڑنے کی کوشش کی، تمام مرغیاں کڑکڑاتے ہوئے بلند آواز کے ساتھ اس پر بھی حملہ آور ہوگئیں۔ میری دفعہ تو پھر بھی خیر رہی تھی، اس غریب کا تو انہوں نے ہاتھ ہی نوچ ڈالا۔

پیاری ڈائری! بھلا خود سوچو! ان مرغیوں کو دانہ دینے والا، میں! انہیں رہنے کیلئے جگہ دینے والا، میں! ان کا خیال رکھنے والا، میں! اور یہ میرے اوپر ہی پنجے جھاڑ کر پل پڑیں؟؟؟ کہاں کا انصاف اور کیسا قانون ہے یہ؟ صدیوں سے مروجہ قانون کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ چپ کر کے ذبح ہوتی رہتیں! اور اگر اتنا ہی مسئلہ تھا تو اپنا ایک وفد اقوام متحدہ میں بھجوا کر قانون میں تبدیلی کرواتیں؟ مگر خدا سمجھے ان قانون شکن مرغیوں کو!

حد تو تب ہوئی جب وہاں کھڑے ہوئے جمال بھائی نے اس سارے منظر کی ویڈیو بنائی اور مرغیوں کے ہاتھوں میری اس شامت پر زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ میں نے جب مرغیوں پر اپنے احسانات اور ان کی احسان فراموشی کا ذکر کیا تو کہنے لگے، میاں! ان مرغیوں کو ذبح کرکے جو پیسے کماتے ہو، اس میں سے چار پیسے اگر واپس ان مرغیوں پر خرچ کردیتے ہو تو کوئی احسان نہیں کردیتے۔ میں آج ہی جاکر اس ویڈیو کو یوٹیوب پر ڈالوں گا کہ سب کو پتہ چل جائے اب اس ملک کی مرغیاں بیدار ہوگئی ہیں۔ بھلا بتائو، یہ بھی کوئی کرنے کی بات تھی؟ عجیب جانور نما انسان ہیں جمال بھائی!!!

وہ تو شکر ہے کہ شہرکو انٹرنیٹ مہیا کرنے والا میرا دوست ہے سو میں نے اس سے کہہ کر ایک کام اچھے وقتوں میں کروالیا تھا۔ اس وقت تو وہ بہت چیخا کہ بھائی یہ تو بے ضرر سی چیز ہے! اسے بند کرنے سے کیا فائدہ ہوجائے گا؟؟مگر آج اس عاقبت نا اندیش دوست کو بھی احساس ہورہا ہوگا کہ میں نے اچھے وقتوں میں ہی کتنا دوراندیش کام کیا تھا۔

پیاری ڈائری! خود سوچو، اگر ویڈیو یوٹیوب پر اپلوڈ ہوجاتی تو ہم انسانوں کی ان مرغیوں کے آگے کیا عزت رہ جاتی؟؟؟

والسلام

زبان دراز مرغی فروش

8 thoughts on “زبان دراز کی ڈائری – 17

  1. چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے- زبان دراز اور سیاست سے باز آ جائے ممکن نہیںَ ّ8

    Like

Leave a reply to shaairejunoob Cancel reply